Aey dil tujhy dushman ki pehchan kahan- Mohsin Naqvi
اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے؟
تو حلقہء یاراں میں بھی محتاط رہا کر
اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں کے کتبے بھی پڑھا کر
اب دستکیں دے گا تو کہاں اے غم احباب!
میں نے کہا تھا کہ مرے دل میں رہا کر
کیا جانیے کیوں تیز ہَوا سوچ میں گم ہے؟
خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اڑا کر
اُس شخص کے تم سے بھی مراسم ہیں تو ہوں گے
وہ جھوٹ نہ بولے گا مرےسامنے آ کر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کردے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر
برہم نہ ہو کم فہمی کو تہ نظراں پر
اے قامتِ فن اپنی بلندی کا گلا کر
اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے؟
تو حلقہء یاراں میں بھی محتاط رہا کر
میں مر بھی چکا ، مل بھی چکا موجِ ہوا میں
اب ریت کے سینے پہ مرا نام لکھا کر
پہلا سا کہاں ہے اب مری رفتار کا عالم
اے گردش دوراں ذرا تھم تھم کے چلا کر
اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر
محسن نقوی